
اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو سینئر ججز جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 4 سال مکمل ہو گئے۔ صحافی اویس یوسفزئی کے مطابق 28 دسمبر 2020 کو دونوں صاحبان کی بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ تقرری کی منظوری دی گئی تھی۔
دونوں ججز نے اپنے کیرئیر میں اب تک کئی اہم فیصلے دیئے ہیں۔ لیکن رواں سال دونوں ججز کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یوں تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججز نے ہی رواں سال ایک خط کے ذریعے اپنے کام میں مداخلت پر سے پردہ اٹھایا تھا لیکن جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار وہ ججز ہیں جن کے خلاف توہین آمیز مہم چلائی گئی اور اسے حد درجہ تک لے جایا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو اس وقت سخت حالات کا مقابلہ کرنا پڑا جب انہوں نے بطور ٹربینول جج اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں انتخابی عذرداریوں سے متعلق کیس سننا شروع کیا۔
ان کی سپیڈ سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد اس کیس کو نمٹا دیں گے۔ ان کی یہ جلدی جیتنے والے امیدواروں کو پسند نہ آئی۔
ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مںظم مہم شروع ہو گئی اور پھر حالات یہاں تک پہنچ گئے کے سالہا سال موجودہ حکمران جماعتوں کے ادوارِ حکومت میں اہم ذمہ داریاں نبھانے والے جسٹس جہانگیری کی ڈگری ہی جعلی قرار دے دی گئی اور جس طرح یہ سارا عمل کیا گیا وہ بہت افسوسناک تھا۔
مزید پڑھیں:نومبر 2024، اسلام آباد ہائیکورٹ کے کس جج نے کتنے کیسز نمٹائے؟
جسٹس بابر ستار کی بات کر لی جائے تو انہیں بھی اپنے اور فیملی کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کو سب کے سامنے لانا پڑا۔
جسٹس ستار کو آڈیو لیک سکینڈل کیس میں کارروائی آگے بڑھانے پر سوشل میڈیا پر توہین آمیز مہم کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں صرف وہ نہیں، انکی فیملی بھی نشانہ تھی۔یوں تو 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ بھی بے وقعت ہوتی نظر آرہی ہے لیکن اب حکومت اسلام آباد میں بھی من پسند ججز لانے کے درپے ہے جس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ شاید آئندہ طاقتور حلقوں کے سامنے سٹینڈ لینے والے ججز جیسا کہ جسٹس بابر ستار اور جسٹس طارق جہانگیری میسر نہ آئیں۔ اس عمل سے یقیناً انصاف کا جو تھوڑا بہت عمل باقی ہے وہ بھی اپنی وقعت کھو دے گا۔