حماس اسرائیل جنگ

اسرائیل حماس جنگ بندی معاہدے پر بڑی پیشر فت

حکام کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ جنگ بندی کے نفاذ تک 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی یہ جنگ جاری رہے گی

اسرائیل حماس جنگ بندی معاہدے پر بڑی پیشرفت، اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے جمعےغزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری دی ہے، جبکہ یہ سفارش کی ہے کہ وسیع تر حکومتی منظوری بھی لی جائے۔

جنگ بندی کا اطلاق ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے موقع پر ہوگا۔

تاہم حکام کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ جنگ بندی کے نفاذ تک 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی یہ جنگ جاری رہے گی۔

جس وقت جنگ بندی کے اس معاہدے کا اعلان ہوا ، اس وقت بھی صہیونی فورسز کی جانب سے غزہ پر بمباری کی گئی جس میں 12 سے زائد افراد کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔

اسرائیل حماس جنگ بندی معاہدہ اور قیدیوں کی رہائی:

 

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ تمام سیاسی، سیکورٹی اور انسانی ہمدردی کے پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد، اور یہ سمجھنے کے بعد کہ مجوزہ معاہدہ جنگ کے مقاصد کو حاصل کرنے میں معاونت کرتا ہے، (سیکیورٹی کابینہ) نے حکومت سے تجویز کردہ فریم ورک کو منظور کرنے کی سفارش کی ہے۔

 

مزید پڑھیں:‌اسرائیل کے بعد مائیکروسافٹ بھی فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے لگا

 

اگر یہ معاہدہ منظور ہو جاتا ہے تو اتوار کو غزہ میں لڑائی اور بمباری روک دی جائے گی، جس کے بعد 7 اکتوبر 2023 سے فلسطینی گروپوں کے زیر حراست قیدیوں کی رہائی ہوگی۔

حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کی شرائط پر پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دور کر دیا گیا ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ اسرائیل سے توقع ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کے پہلے گروپ کو رہا کر دے گا، جن میں سے کئی کو اعلیٰ سزائیں دی گئی ہیں۔

اسرائیلی وزارت انصاف نے 95 فلسطینی قیدیوں کی فہرست شائع کی ہے جنہیں غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی اسیران کے پہلے تبادلے کے ایک حصے کے طور پر اتوار سے رہا کیا جانا ہے۔

معاہدے کے باوجود حملوں میں جانی نقصان:

 

وزارت نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ قیدیوں کی رہائی (جنگ بندی) کے منصوبے کی حکومتی منظوری سے مشروط ہے اور اتوار4 بجے سے پہلے نہیں ہوگی۔تاہم، معاہدے کے اعلان کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جمعہ کے روز، اسرائیلی جنگی طیاروں نے شدید حملے جاری رکھے، اور طبی اور امدادی حکام نے بتایا کہ بدھ سے اب تک کم از کم 104 فلسطینی، جن میں 58 خواتین اور بچے شامل ہیں، مارے جا چکے ہیں، جس سے جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 46,876 ہو گئی ہے۔

تاہم شہادتوں کی یہ تعداد حقیقی اعداد و شمار سے بہت کم تصور کی جارہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں عام شہریوں، بچوں اور خواتین کے ساتھ بڑے پیمانے پر صحافیوں کو بھی قتل کیا گیا ہے۔

یہ تعداد سینکڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل صحافیوں اور بین الاقوامی اداروں کو آزادانہ رپورٹنگ بھی نہیں کرنے دے رہا جس سے حقیقی اعداد و شمار سامنے نہیں آ پا رہے ہیں۔

دوسری جانب جنگ بندی کے بعد ہی نقصان کا اصل ازالہ اس وقت ہوگا جب غزہ میں ملیا میٹ ہونے والی عمارتوں کا ملبہ اٹھایا جائے گا۔ اس ملبے کو اٹھائے جانے کے دوران مزید نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button