اہم خبریںپاکستانسیاست

بلوچستان نے ملک کو کیا دیا اور بلوچستان کو کیا ملا؟ اختر مینگل کا خط

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سرادر اختر مینگل نے ایک کھلا خط لکھا جسے انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر شیئر کیا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سرادر اختر مینگل نے ایک کھلا خط لکھا جسے انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر شیئر کیا۔
اس خط میں تقابلی جائزہ لیا گیا ہے کہ بلوچستان نے ملک کیا دیا اور بدلے میں بلوچستان کو کیا ملا۔

اپنے کھلے خط میں اخترمینگل نے لکھا کہ ” مزاحیہ بات ہے کہ آپ میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان صرف گوادر تک محدود ہے۔ گوادر کو نکال بھی دیں، تب بھی بلوچستان برصغیر کا سب سے زیادہ وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ مگر افسوس، ریاستی بیانیے نے آپ کو اس سچ سے دور رکھا ہے۔”

بلوچستان نے کیا دیا اوربدلے میں کیا پایا؟ اختر مینگل کا کھلا خط:

اپنے خط میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں ریکوڈک کی زمینوں میں سونا اور تانبا دفن ہے، جن کی مالیت کھربوں ڈالرز میں ہے۔ اگر یہ وسائل بلوچ عوام کے ہاتھ میں ہوتے تو شاید آج وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے۔ پھر سینڈک ہے، جہاں کے خزانے نکالے جا رہے ہیں، مگر ان کے وارث آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔
بی این پی مینگل کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ” یہ وہ سرزمین ہے جس نے پاکستان کو قدرتی گیس دی، جس سے پورے ملک کے چولہے جلتے ہیں، فیکٹریاں چلتی ہیں، معیشت پروان چڑھتی ہے۔ مگر اسی بلوچستان کے کئی گھر آج بھی اندھیروں میں ڈوبے ہیں، چولہے ٹھنڈے ہیں، بچے سردیوں میں ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں۔”
اپنے خط میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ” یہ وہ خطہ ہے جس نے پاکستان کو سمندر دیا، گوادر دیا جس پر آج سب کی نظریں ہیں، اقتصادی راہداری دی جس سے پورے ملک کے تاجروں کو فائدہ پہنچا، مگر یہی گوادر جہاں کے ماہی گیر آج بھی مچھلیاں پکڑنے کے لیے اجازت نامے مانگتے ہیں، روزی روٹی کے لیے ترستے ہیں۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان نے سب کچھ دیا، مگر خود ہمیشہ بھوک، محرومی، اور لاپتہ افراد کے نوحے سنے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ جس زمین نے سب کچھ دیا، اس کے لوگ آج بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں؟ جس زمین نے پاکستان کو شناخت دی، آج اسی کے فرزندوں کی قبریں بے نام ہیں؟

مزید پڑھیں: بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملہ اور اس کے پس پردہ عوامل

 

سربراہ بی این پی مینگل کا جبری گمشدگیوں کا ذکر:

اپنے خط میں اختر مینگل نے لکھا کہ یہ وہی بلوچستان ہے جہاں ایک بیٹی اپنے باپ کے جوتے ڈھونڈتی ہے، اور جب ان میں سے دھول نکلتی ہے، تو وہ ایسی چیخ مارتی ہے کہ پورا بلوچستان اس کے ساتھ چیخ اٹھتا ہے۔ کیونکہ یہاں کوئی ایک گھر نہیں بچا جس کا کوئی فرد لاپتہ نہ ہو، میرا اپنا گھر بھی نہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ "چلو، وہ سب تو "ایجنٹ” ہیں، مگر میرا والد؟ وہ جو بلوچستان کا پہلا وزیرِاعلیٰ تھا؟ وہ جس نے آپ کے آئین پر حلف اٹھایا، جمہوریت پر یقین رکھا، ہر غیر آئینی طاقت سے لڑا؟ وہ جو مینگل قبیلے کا سردار تھا؟ اس کا بیٹا بھی لاپتہ ہو گیا۔ پھر بھی بلوچستان ہی غلط؟
اختر جان مینگل کا مزید کہنا تھا کہ ” جب انصاف مانگنے آتے ہیں تو کیا ملتا ہے؟ ہمدردی؟ پچھتاوا؟ نہیں! سوال پوچھا جاتا ہے: کیا آپ خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں” اور ہاں، بہت معذرت کے ساتھ، یہاں برابری صرف اس وقت آتی ہے جب کسی پنجابی کے خون پر مذمت کرنی ہو، ورنہ بلوچ کی چیخوں پر یقین تک نہیں آتا کہ یہ اسی ملک کے شہری ہیں۔
سربراہ بی این پی مینگل نے سوال اٹھایا کہ دوری خود پیدا کر کے پوچھتے ہو، کیوں رو رہے ہو؟ یہ ملک ہمیشہ ہماری چیخوں پر بہرا بنا رہا، ہمیشہ ہمیں نظر انداز کیا، ہمیشہ ہمیں غدار کہا، اور اب وہی کہہ رہا ہے: "ہمیں تمہاری ضرورت ہے!” آپ خوش ہوں یا ناراض، مجھے یہ کہنا پڑے گا: پاکستان، بلوچستان کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
اختر مینگل نے اپنے خط کے آخر میں لکھا کہ اللہ آپ سب کے دل میں اتنی ہمدردی ڈالے کہ آپ سمجھ سکیں کہ آج کا بلوچ نوجوان آپ سے بات کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ آپ کی وہ "انا پرستی” ہے جو آج بھی اسے اپنا مقام دینے کو تیار نہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button